قارئین! یہ تحریر میں نے ماہنامہ اردو ڈائجسٹمیں پڑھی‘ اسے پڑھ کر میرے دل میں پاک فوج کی عظمت مزید بلند ہوگئی۔ خاص طور پر عبقری قارئین کیلئے بھیج رہا ہوں۔ان مقدس لمحوں کی جذبات انگیز داستان جب وطن عزیز کے رکھوالے حملہ آوروں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔
چھ ستمبر1965 ء کی جنگ کے فوراً بعد پاک فوج کی اجازت سے میں اپنے گاؤں گیا‘ڈیڑھ دو ہزار گز دور ‘ بھسین (اپنا ایک بڑا گائوں) دکھائی دے رہا تھا ۔نہر کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھا تو مجھے وہم سا ہوا جیسے دونوں فوجوں کے درمیان گھرے اس گائوں میں اب بھی وہی زندگی رواں دواں ہے جو پانچ ستمبر کی شام اونگھ کر سو گئی لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ کل کی سحر گائوں والوں کو مرغ کی اذانیں اور کالی تیتری کی مترنم چیخیں نہیں بلکہ توپوں کے گولے جگائیں گے ۔میں نہر کے کنارے کھڑا اس گائوں کو دیکھ رہا تھا کہ پاک فوج کا ایک جواں سال سیکنڈ لیفٹیننٹ مجھے جیپ میں بٹھا کر اسی گائوں کی طرف چل دیا ۔ ہرطرف ویرانی‘ تباہی اور وحشت تھی جو میرا کلیجہ چیڑ رہی تھی۔قریب ہی ایک مکان کے کواڑ کھلے تھے ‘ میں اندر چلا گیا ۔ گائوں کی کئی دیواروں اور منڈیروں پر طیاروں کی گولیوں کے نشان تھے جگہ جگہ گولوں کے ٹکڑے بکھرے تھے‘میں دل ہی دل میں رو رہا تھا کہ میرے خوبصورت سنہرے‘ ہنستے بستے گاؤں کا کیا حشر ہوگیا؟
سیکنڈ لیفٹیننٹ مجھے ایک پکے مکان کی دوسری منزل (چھت) پر لے گیا۔ چھت پر فصیل تھی اور ایک کونے میں پاک فوج کے اس دستے نے عارضی چھت ڈال کر دیکھ بھال کی چوکی (آبزرویشن پوسٹ) بنا رکھی تھی ۔ وہاں پاک فوج کے چار جوان کھڑے تھے ۔ ایک جوان دوربین سے دشمن کے مورچوں کو دیکھ رہا تھا ۔ اس نے دور بین مجھے دے دی ۔ میں نے جب دور بین آنکھوں سے لگا کر اپنی نظروں پر مرکوز کی تو مجھے دور پرے دشمن کے مورچے اور اس طرف پاکستان کا مجروح خطہ اور اس میں سینہ تان کر گھومتے پھرتے پاکستانی مجاہد نظر آئے ۔
میں نے محسوس کیا کہ جیسے دور بین نے اس کے علاوہ مجھے اور بھی بہت کچھ دکھایا ہے ۔ اپنے آپ کو دیکھا ‘ اپنی روح کی گہرائیوں کو دیکھا جہاں سے ایک تلاطم ابھر رہا تھا اور مجھے پاکستان کے کروڑوں عوام نظر آئے ۔ میں نے دور بین آنکھوں سے ہٹا کر پاک فوج کے سیکنڈ لیفٹیننٹ اور چار جوانوں کو دیکھا ‘ تو ان کے چہرے ‘ ان کا روپ اور سراپا اس قدر مقدس نظر آیا کہ بے اختیار جی چاہا کہ ان مجاہدوں کے پائوں چھولوں ۔ میں نے چھت کی بلندی سے گائوں کی ویرانی پر نگاہ ڈالی تو اب میرے دل پر ہول طاری نہ ہوا ‘ میں نے زیر لب کہا ’’گائوں ویران ہو گیا ہے‘‘ ایک جوان نے پر عزم مسکراہٹ سے کہا ’’پھر آباد ہو جائے گا ۔ ‘‘
یہ سن کر میرے دل پر اداسی اور یاس کا جو ذرا سا دھند لگا رہ گیا تھا ‘ وہ بھی چھٹ گیا ۔ وہ جوان تعلیم یافتہ نہیں تھا ‘ اسے معلوم نہ تھا کہ بات کس طرح کہی جاتی ہے ‘ وہ یقینا ً یوں کہنا چاہتا تھا ’’بستیاں تو اجڑ کر بس ہی جاتی ہیں صاحب لیکن (خوانخواستہ) ملک اجڑ جاتا تو ہم اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ اور حبیب اللہ ﷺ کو منہ نہ دکھا سکتے۔ یہ گائوں تو ہم کل پرسوں پھر بسا لیں گے ‘ ابھی تو ہم زندہ ہیں ۔ ‘‘میں نے چاروں جوانوں کو دیکھا ‘ یوں لگا جیسے ان کی گردنیں اور تن گئی ہیں ‘ سینے مزید پھیل گئے ہیں اور ان کی آنکھوں کی چمک بزبان خامشی کہہ رہی تھی ’’گائوں تو اجڑ گیا ہے لیکن دیکھئے تو سہی ‘ ہم دشمن کو دھکیل کر کہاں تک لے گئے ہیں ۔‘‘
اس روز واہگہ سیکٹر کے اجڑے ہوئے گاؤں کی ایک چھت پر کھڑے جب سیکنڈ لیفٹیننٹ نے مجھے بتایا ’’وہ دشمن کے مورچے ہیں ‘‘تو اس کے چہرے پر فاتحانہ تاثر دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ رنگون کی تباہی اور پاکستان کے ایک گائوں کی تباہی میں کیا فرق ہےاور یہ بھی کہ میں پاک فوج کے مجاہدوں کے ہاتھ چومنے کو کیوں بے تاب ہوں اور یہ بھی کہ دوسری عالم گیر جنگ کے فوجیوں اور پاک فوج کے جانبازوں میں کیا فرق ہے اور یہ بھی کہ ہمارا یہ گائوں نہ اجڑتا ‘ تو ہم بیدار کیونکر ہوتے ؟ میں نے اجڑے ہوئے گائوں کی ایک چھت پر کھڑے ہو کر دشمن کے مورچوں کو دیکھا پھر گھوم کر بی آر بی نہر کی فاتحانہ روانی دیکھی تو پہلی بار معلوم ہوا ‘ فوجی کو سلام کرو ‘ کا مطلب کیا ہے اور یہ کس قدر قابل قدر اور عظیم تھا ۔ پاک فوج کی ایک مشاہداتی چوکی پر کھڑے جوان کو دیکھ کر میرے سینے سے بے ساختہ آواز نکلی۔ پاک فوج کو سلام ‘ لاکھوں سلام ۔ ‘‘
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں